جرمنی کا سیاسی نظام انتہا پسندوں کو روکنے کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن اب ملک ایک نئی سیاسی حقیقت سے دوچار ہو رہا ہے، جہاں دائیں بازو کی طرف جھکاؤ بڑھ رہا ہے۔ کبھی سیاسی طور پر الگ تھلگ سمجھی جانے والی جماعت “الٹرنیٹیو فار جرمنی” (AfD) اب ملک کی سیاست میں اپنی جگہ مضبوط کر چکی ہے۔
اتوار کے انتخابات میں عوامی جائزوں کی پیشگوئی کے مطابق مرکزی دھارے کی قدامت پسند جماعتوں نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے اور نئی حکومت بنانے کی کوشش کریں گی، جبکہ AfD دوسرے نمبر پر آئی۔ لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ دوسرے نمبر پر آنا اس جماعت کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اگرچہ یہ ممکنہ طور پر حکومت میں شامل نہیں ہوگی، مگر اس کی سیاسی اثر و رسوخ میں نمایاں اضافہ ہوگا۔
سی این این کے مطابق ، اس جماعت کی مقبولیت 2021 کے پچھلے انتخابات کے مقابلے میں دوگنی ہو چکی ہے، جب اسے 10.3 فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کی تاریخ میں پہلا دائیں بازو کا انتہا پسند گروپ ہے جو عوامی مقبولیت کی اس سطح تک پہنچا ہے اور اس نے پارلیمنٹ (بنڈسٹاغ) میں اپنی نشستوں کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ کیا ہے۔
AfD کو خاص طور پر مشرقی جرمنی میں بڑی عوامی حمایت حاصل ہوئی، جہاں یہ پہلے ہی ایک مضبوط جماعت سمجھی جاتی تھی۔ تاہم، اس نے مغربی جرمنی میں بھی قابل ذکر کامیابیاں حاصل کیں، جیسے صنعتی شہر “گیلسنکرشن”، جو اقتصادی جمود اور بے روزگاری سے متاثرہ ہے، اور “کائزرزلاوٹرن”، جو امریکی فوجی تنصیبات، بشمول “ریمسٹائن ایئر بیس”، کے قریب واقع ہے۔
اتوار کی شام ابتدائی انتخابی نتائج کے بعد، AfD کی شریک رہنما ایلس وائیڈل نے برلن میں خطاب کرتے ہوئے کہا: **”ہم پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں – ہم دوسری سب سے بڑی قوت ہیں۔”**