چیئرپرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP)سینیٹر روبینہ خالد نے دوسری قومی سماجی تحفظ کانفرنسمیں پاکستان کے سماجی تحفظ فریم ورک کو مستحکم کرنے کے لیے تمام ترقیاتی شراکت داروں، پالیسی سازوں اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان تعاون پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہشہید محترمہ بینظیر بھٹو نے ہمیشہ اس بات پر یقین رکھا کہ کوئی بھی قوم حقیقی ترقی نہیں کر سکتی اگر اس کے پسماندہ طبقے کو نظر انداز کیا جائے۔ بی آئی ایس پی ایشیا کا سب سے بڑا سماجی تحفظ نیٹ ورک ہے، جو مختلف فلاحی پروگراموں کے ذریعے لاکھوں مستحق خاندانوں کو سہولت فراہم کر رہا ہے۔
بی آئی ایس پی کے نمایاں اقدامات
-98 لاکھ مستحق خاندان بینظیر کفالت کے تحت غیر مشروط مالی امداد حاصل کر رہے ہیں۔
1 کروڑ 7 لاکھ بچوں کا بینظیر تعلیمی وظائف کے تحت اندراج کیا جا چکا ہے، جن میں 1 کروڑ 7 لاکھ بچوں 50 فیصد لڑکیاں** شامل ہیں۔
بینظیر نشوونما پروگرام حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں کو غذائی امداد فراہم کرکے ماں اور بچے کی صحت کو بہتر بنا رہا ہے۔
نیشنل سوشیو اکنامک رجسٹری (NSER) پاکستان کی پہلی ڈائنامک ڈیٹا بیس ہے، جو 95 سے زائد سماجی شعبوں کو مستحق افراد کے درست ڈیٹا کی فراہمی میں مدد فراہم کرتا
بینظیر سوشل پروٹیکشن اکاؤنٹس کے ذریعے خواتین کو نئے بینکنگ ماڈلکے تحت مالی خودمختاری دی جا رہی ہے۔
کا آغاز مستحق افراد کی معاشی بحالی اور مہارتوں کے فروغے لیے کیا جا رہا ہے۔
سماجی تحفظ کا مستقبل
سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ غربت، موسمیاتی تبدیلی اور معاشی عدم استحکام جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط اور مؤثر سماجی تحفظ نظام کی ضرورت ہے۔ انہوں نے وفاقی اور صوبائی سطح پر ہم آہنگی کو فروغ دینے کی اہمیت پر بھی زور دیا تاکہ ملک میں سماجی تحفظ کے نظام کو مزید مؤثر اور مربوط بنایا جا سکے۔
انہوں نے یورپی یونین اور جرمنی کی جانب سے سماجی تحفظ کو مستحکم کرنے کے لیے فراہم کیے جانے والے تعاون کو سراہا اور عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB)، ترقیاتی شراکت داروں اور وفاقی و صوبائی اسٹیک ہولڈرز کی کاوشوں کا اعتراف کیا۔
کانفرنس کی تفصیلات
یہ کانفرنس GIZ پاکستان کے زیر اہتمام یورپی یونین اور جرمنی کی وفاقی وزارت برائے اقتصادی تعاون و ترقی (BMZ) کے تعاون سے **24 سے 26 فروری 2025 تک جاری رہے گی۔ اس میں وفاقی و صوبائی سماجی تحفظ کے ادارے، ترقیاتی شراکت دار اور حکومت پاکستان کے کلیدی اسٹیک ہولڈرز شریک ہیں۔
کلیدی مقررین میں جرمن قونصل جنرل مسٹر روڈیگر لوٹز، GIZ پاکستان کی کنٹری ڈائریکٹر محترمہ ماریہ جوز پوڈی اور ایڈاپٹیو سوشل پروٹیکشن کی پروجیکٹ ہیڈ جوہانا نویس شامل تھیں۔