حماس نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں ہفتے کے روز ہونے والی مغویوں کی مجوزہ رہائی کو “تا حکم ثانی” مؤخر کر دیا گیا ہے، اور اس تاخیر کا سبب اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کو قرار دیا ہے۔
سی این این کے مطابق ،اسرائیل نے اس فیصلے کو “جنگ بندی کی مکمل خلاف ورزی” قرار دیتے ہوئے اپنی فوج کو غزہ میں “کسی بھی ممکنہ صورتحال” کے لیے تیار رہنے کی ہدایت دی ہے۔
الاقصیٰ بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے سوشل میڈیا پر بیان میں کہا کہ “وہ قیدی، جنہیں ہفتے کے روز رہا کیا جانا تھا، اب مزید اطلاع تک رہا نہیں کیے جائیں گے، جب تک کہ قابض قوت معاہدے کی شرائط پوری نہیں کرتی اور پچھلے ہفتوں کے واجبات کا ازالہ نہیں کرتی۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “ہم معاہدے کی شرائط پر اس وقت تک کاربند رہیں گے جب تک قابض قوت بھی ان شرائط پر عمل درآمد یقینی بنائے گی۔”
ابو عبیدہ نے اسرائیل پر متعدد خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا، جن میں بے گھر افراد کی شمالی غزہ واپسی میں تاخیر، مختلف علاقوں میں گولہ باری اور فائرنگ، اور امدادی سامان کی مکمل رسد نہ پہنچنے دینا شامل ہیں۔
حماس کے اعلان کے ردعمل میں، اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گالانت نے فوج کو ہدایت دی کہ وہ “اعلیٰ ترین سطح پر تیار رہیں” اور حماس کے اس اقدام کو “جنگ بندی معاہدے اور مغویوں کی رہائی کی ڈیل کی مکمل خلاف ورزی” قرار دیا۔
غزہ میں قید مغویوں کے اہل خانہ نے ثالثی کرنے والے ممالک سے فوری مدد کی درخواست کی ہے تاکہ جنگ بندی معاہدے کو بحال اور اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔
یاد رہے کہ جنوری میں طے پانے والا مغویوں کی رہائی کا معاہدہ امریکہ اور قطر کی ثالثی میں ہوا تھا، جس کے تحت اب تک حماس 16 اسرائیلی مغویوں کو رہا کر چکا ہے، جبکہ مجموعی طور پر 33 مغویوں کی رہائی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ دوسری جانب، اسرائیل نے 183 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا، جن میں سے 18 عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔
معاہدے کے تحت دوسرے مرحلے کے مذاکرات پیر کو شروع ہونے تھے، تاہم حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے میں طے شدہ پناہ گاہوں کی فراہمی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔