روس نے یوکرین کی طرف سے داغے گئے امریکی ساختہ ATACMS میزائلوں کو گرانے کے بعد جوابی کارروائی کا عزم ظاہر کیا ہے۔ ہفتے کی صبح گرانے گئے ان میزائلوں کی تعداد آٹھ بتائی گئی ہے۔
ماسکو نے ان میزائلوں کے استعمال کو تنازعے میں ایک اہم اضافہ قرار دیا ہے۔ یہ میزائل 300 کلومیٹر (186 میل) تک کی رینج رکھتے ہیں۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق، ملک کی فضائی دفاعی نظام نے ان میزائلوں کے ساتھ 72 بغیر پائلٹ کے طیارے بھی مار گرائے ہیں۔ وزارت نے مزید کہا کہ “کیف کے اس اقدام، جسے مغربی سرپرستوں کی حمایت حاصل ہے، کا سخت جواب دیا جائے گا۔”
کئی ڈرون شمال مغربی علاقے لیننگراڈ اور ایک کورسک میں تباہ کیے گئے، جہاں گزشتہ موسم گرما میں یوکرین نے اچانک حملہ کیا تھا۔
سی این این کے مطابق، امریکی صدر جو بائیڈن نے نومبر میں ATACMS میزائل کے استعمال کی منظوری دی تھی، جسے روس کی جانب سے شمالی کوریائی فوجیوں کی تعیناتی کے بعد تنازعے کے پھیلاؤ کا جواب قرار دیا گیا۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ان میزائل حملوں کا جواب دینے کے لیے جوابی کارروائی کے طور پر نیوکلیئر صلاحیت کے حامل نئے بیلسٹک میزائل “اوریشنک” کے استعمال کی دھمکی دی ہے۔ پوتن نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ اس میزائل کو مغربی فضائی دفاعی نظام کی جانچ کے لیے کیف پر فائر کیا جا سکتا ہے۔
21 نومبر کی صبح، اس تجرباتی ہتھیار کا پہلا اور واحد حملہ یوکرین کے ڈنیپرو علاقے پر کیا گیا تھا۔
یوکرین کے ڈرون حملوں نے روس کے سینٹ پیٹرزبرگ کے ایک ایئرپورٹ پر عارضی پابندیاں عائد کرنے پر مجبور کر دیا، روسی خبر رساں ایجنسی TASS نے رپورٹ کیا۔ لیننگراڈ کے گورنر، الیگزینڈر دروزدینکو، نے ٹیلیگرام پر کہا کہ “4 جنوری کی رات اور صبح بغیر پائلٹ کے طیاروں کی سب سے زیادہ تعداد کو تباہ کرنے کا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔”
یوکرینی سیکیورٹی اہلکار آندری کووالینکو نے کہا کہ لیننگراڈ کے ایک بندرگاہ کو نشانہ بنایا گیا، جسے روس کی تنہائی میں معاشی اور عسکری بقا کے لیے اہم قرار دیا گیا۔
ادھر روس نے جمعہ کی رات سے ہفتہ کی صبح تک یوکرین پر کل 81 ڈرون حملے کیے، جن میں ایرانی ساختہ شاہد ڈرونز اور مختلف قسم کے دیگر ڈرونز شامل ہیں۔ یوکرین کی فضائیہ کے مطابق، ان میں سے 34 شاہد ڈرونز اور دیگر اقسام کے ڈرونز مار گرائے گئے، تاہم چند گرائے گئے ڈرونز کی وجہ سے چرنیہیو اور سومی علاقوں میں نقصان ہوا۔
روس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے یوکرین کے مشرقی علاقے لوہانسک کے گاؤں نادیہ کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ ڈونیسک میں پوکرووسک کے مرکز پر روسی دباؤ بڑھ رہا ہے، جہاں یوکرینی افواج جنوب اور مشرق میں پسپائی اختیار کر رہی ہیں۔
یوکرین کو تشویش ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ یوکرین کو دی جانے والی اہم فوجی امداد میں کٹوتی کر سکتی ہے، کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے تنازعے کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔