گڑھی خدا بخش پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بینظیر بھٹو کے 17 ویں یوم شہادت پر خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی جانب سے قوم کو بطور تحفہ دیئے ہوئے ایٹمی اثاثوں اور میزائل پروگرام پر کسی کو سودے بازی نہیں کرنے دیں گے۔ میڈیا سیل بلاول ہاوَس سے جاری کردہ پریس رلیز کے مطابق، پی پی پی چیئرمین نے اپنی والدہ و پاکستان کی دو بار وزیراعظم منتخب ہونے والی خاتون وزیراعظم شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بی بی شہید نے جس بہادری کے ساتھ اپنی 30 سالہ جدوجہد کی، وہ دنیا کے سامنے اور تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو دنیا کی پہلی مسلم خاتون وزیراعظم بنیں، اور بلاشبہ وہ اس ملک کی حقیقی نمائندہ تھیں۔ انہوں نے کبھی اپنے نظریے، منشور اور عوام کے حقوق پر سودیبازی نہیں کی۔ “وہ پیچھے نہیں ہیں، نہ کسی آمر کے سامنے، نہ وہ کسی دہشتگرد کے سامنے جھکیں۔ وہ کھڑی رہیں، آخری دم تک وہ آپ (عوام) کا مقدمہ لڑتتی رہیں، لیکن پیچھے نہیں ہٹیں۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہناتھا کہ جنہوں نے شہید محتترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کیا، اُن کی یہ غلط فہمی تھی کہ جب بی بی شہید موجود نہیں ہوگی تو سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبرپختونخو, گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حقیقی آواز دب جائے گی اور پاکستان میں صرف کٹھ پتلیاں ہوں گی جو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے پاکستان کے عوام کے حقوق کا سودا کرنے پر تیار ہوتی ہیں، پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر سودا کرنے کو تیار ہوتی ہیں۔”وہ ملک کو ہر نقصان پہنچانے کے لیے تیار ہوتے ہیں، بس ان کو اسلام آباد کی کرسی پر بیٹھنے کا شوق ہوتا ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ 27 دسمبر 2007ع سے ملک نقصان اٹھا رہا ہے کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا اور کٹھ پتلیوں کو مسلط کیا گیا، اب پاکستان اس جگہ پر کھڑا ہے کہ مسئلے ہی مسئلے ہیں، معاشی مسئلہ ہے، دہشتگردی پھر سراٹھا رہی ہے، ہر صوبے کے اپنے مسائل ہیں، بیرونی سطح پر پاکستان کے لیے بہت سی مشکلات آنے والی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ان تمام مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا،کیونکہ کسی ایک سیاسی جماعت کے پاس نہ مینڈیٹ ہے، نہ سکت ہے کہ وہ بیک وقت ملکی و غیر ملکی تتمام چیلینجز کا مقابلہ کرسکے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عوام نے پیپلز پارٹی کو ایک ذمہ داری دی ہے۔ “آپ وہ واحد سیاسی جماعت ہو، جو آجکل کی سیاسی صورتحال میں بھی فخر سے بول سکتے ہو کہ ہم نہ سلیکڈ ہیں، نہ فارم -45 والے ہیں۔
” انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو سادہ اکثریت نہیں ہے، لیکن وہ اگر کسی کو جوابدہ ہیں تو وہ گڑھی خدابخش اور پیپلزپارٹی کے جیالے ہیں، جن کو ہم جوابدہ ہیں۔ “ہمیں کسی کرسی کا شوق نہیں ہے۔ الیکشن کے بعد ہم نے اس وقت یہ فیصلہ کیا کہ جو سیاسی جماعت ہمارے پاس آئی ہے، اور جو وعدہ کررہی ہے کہ وہ ملک میں سیاسی استحکام لائیں گے، مہنگائی کم کریں گے، تو ہم نے ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔” پی پی پی چیئرمین نے مزید کہا کہ ہم نے مسلم لیگ ن کے سربراہ ساتھ یہ طے کیا کہ آپ کے پاس سیٹیں زیادہ ہیں، آپ حکومت بنائیں تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے، لیکن اس کے بدلے میں ہم آپ سے ایک بھی وزارت نہیں لیں گے۔ “ہم نے مسلم لیگ کو یہ بھی بولا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ آپ ہم سے ووٹ لے کر آنکھیں پھیر لو۔” چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مسلم لیگ ن سے یہ بھی طے ہوا تھا کہ پی ایس ڈی پی اور چاروں صوبوں کی ڈولپمینٹ کے حوالے سے تمام فیصلے اتفاق رائے سے کیئے جائیں گے.
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے ہر دور حکومت میں صوبوں کو سوتیلے سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ “ہم نے معاہدہ میں باقائدہ لکھوایا تھا کہ سب سے پہلی ترجیح یہ ہے کہ جن لوگوں کا سیلاب سے نقصان ہوا تھا، ان کی ہم ضروریات پوری کریں گے۔” چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت معاہدے پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کے ہر بل کی منظوری کے لیے پیپلز پارٹی کے ارکانِ اسمبلی آنکھیں بند کرکے ووٹ ڈالتے رہے ہیں، لیکن جب وہ اپنے انتخابی حلقوں میں جاتے ہیں تو خالی ہاتھ جانا پڑتا ہے۔ “جب آپ اپنے علاقوں میں جاتے ہیں تو آپ سے سوال کیا جاتا ہے، معیشت، امن و امان، دہشتگردی پہ، اگر آپ کے پاس کوئی جواب نہ ہوتو اس طریقے سے حکومتیں نہیں چلتی۔” انہوں نے زور دیا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمان کو اعتماد میں لے۔چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھاکہ انہیں حکومت کی نئے کینالوں کی پالیسی پر اعتراض ہے، جو پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام معاملات پر ہماری کوشش یہی رہے گی عوام کے حقوق کا تحفظ کریں اور پاکستان کے مسائل کا حل نکالیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ملک کے خلاف تیار ہونے والی بین الاقوامی سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاست کو ایک طرف رکھ کر پاکستان اور اس کا دفاع کا سوچنا پڑے گا۔
بلاول بھٹو زرداری نے صدر مملکت آصف علی زرداری سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ وہ بطور صدر مملکت اور نمائندہ وفاق، حکومت کو تجویز دیں کہ وہ جو فیصلے بھی کرے، اتفاق رائے سے کرے۔ انہوں نے کہا کہ جو فیصلے اتفاق رائے سے ہوتے ہیں وہ مضبوط فیصلے ہوتے ہیں اور مسائل کا اصل حل نکالتے ہیں۔انہوں نے صدر مملکت آصف علی زرداری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پہلے دور صدار ت میں 5 سال حکومت مکمل کرنا سیاسی کارنامہ تھا۔ انہوں نے نشاندھی کرے ہوئے کہا کہ 2008ع میں چاروں صوبوں میں پیپلز پارٹی کی حکومیں بنانے کے بجائے انہوں نے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا اور تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لیا، اور جب مکمل یکجہتی کے ساتھ سیاسی جماعتوں نے فیصلے لیے تو تاریخ میں پہلی بار صوبوں کو حقوق ملے اور 18 ویں ترمیم منظور ہوئی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ آج کل پاکستان کے مخالفین قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے دیے ہوئے میزائل ٹیکنالوجی کے تحفے کو میلی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔ “اُن کی خواہش ہے کسی مسلمان ملک کے پاس ایسی قوت نہ ہو اور وہ کسی نہ کسی بہانے سے آپ کی یہ طاقت (جوہری طاقت) چھیننا چاہتے ہیں۔انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ہم اپنی ایٹمی اثاثوں اور نہ ہی میزائل پروگرام پر کسی قسم کی سودے بازی نہیں کرنے دیں گے۔
چیئرمین بلاول بھو کا کہنا تھا کہ مختلف ممالک ہماری اندرونی سیاست کے اوپر بیان دے رہے ہیں، لیکن درحقیقت یہ سب کچھ بہانہ ہے اور کسی کو پاکستان کی جمہوریت کے بارے میں کوئی فکر نہیں ہے۔ “عمران خان صرف بہانہ ہے اصل میں نشانہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور میزائل ٹیکنالوجی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو واضح کرنا چاہیے کہ آئے روز ان کی حمایت میں بیان دینے والےلوگ وہی لوگ نہیں ہیں جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ہیں؟ انہیں جواب دینا چاہیے کہ یہ بانی پی ٹی آئی کے حق میں کیوں بول رہے ہیں؟ کیا یہ وہی لوگ نہیں جو سب سے زیادہ آواز پہلے اسرائیل کی حکومت کے لیے اٹھاتے تھے اور پھر اس کے بعد آپ (عمران خان) کے لیے اٹھاتے ہیں؟ انہوں نے زور دیا کہ اس معاملے پر پی ٹی آئی کوبھی وضاحت دینے ہوگی اور ایسے بیانات کی مذمت کرنی ہوگی۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر پاکستان کی جوہری پالیسی اور قوت کے خلاف بیان دینے والے لوگ عمران خان کی حمایت کررہے ہیں تو جو ملک میں یہ تاثر ہے کہ ایک مخصوص لابی یہ چاہتی ہے کہ پاکستان میں ایسی حکومت آئے جو طاقت حاصل کرنے کے لیے ہر چیز پر سودا کرنے کے لیے تیار ہو، تو پیپلزپارٹی اور اس کے جیالے ہر ایسی کوشش کو ناکام بنائیں گے۔