قائد کا دو قومی نظریہ فطری تھا جسکی آج بھی اتنی ہی اہمیت ہے:سابق سفیر

اسلام آباد میں نے بھارت میں سترہ سال سفارتکاری کے دوران مختلف عہدوں پر رہ کر یہ محسوس کیا کہ قائد اعظم رح اور ساتھیوں کا دو قومی نظریہ فطرت کے عین مطابق تھا۔ آج بھی اسکی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی پاکستان بناتے وقت تھی۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز سفارتکار اور دانشور میاں افراسیاب مہدی ہاشمی نے نظریہ پاکستان کونسل میں خصوصی تقریب “نئے بنگلہ دیش سے تعلقات” سے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انکا کہنا تھا کہ میں نے طویل عرصہ بھارت میں دونوں کے درمیان رہ کر دیکھا کہ تہذیب وثقافت اور مذہبی اعتبار سے ہندو اور مسلم دو مختلف قومیں ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل یہ 600 سال تک اکٹھے تو رہے مگر ایک نہیں ہو سکے۔ قیام پاکستان کے بعد بھارت نے کبھی بھی دل سے پاکستان کو قبول نہیں کیا۔ اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے آج دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ ہمارے بنگالی بھائی پس پردہ صورتحال سے بخوبی آگاہ ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ پورے خطے میں پاکستان کے سوا انکا کوئی مددگار نہیں۔ اب اس صورتحال میں نہ صرف حکومت وقت کو بڑی دانشمندی سے بنگلہ دیش سے تعلقات کو فروغ دینا ہوگا بلکہ عوامی سطح پر بھی باہمی تعلقات کو فروغ دینا ہوگا جس میں وقت لگے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بنگلہ دیش کا حالیہ انقلاب دو قومی نظریہ کے زندہ ہونے کی ٹھوس شہادت ہے۔تقریب کےصدر اور کونسل کے چیئرمین میاں محمد جاوید نے کہا کہ 16 دسمبر 1971ء میں ہم کراچی تھے اور اس قدر غمزدہ اور پریشان تھےکہ بہت سے دوست خاص کیفیت میں قائد کے مزار پر جمع ہوگئے۔ پھر اسی حالت میں کئی روز تک شیو نہیں کی کپڑے نہیں بدلے۔ یہ حقیقت ہے کہ اے پی ایس پشاور اور مشرقی پاکستان 16 دسمبر کے یہ دونوں سانحات ہمارے دل پر نقش ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں عالمی طاقتوں کے “نیو ورلڈ آرڈر” کا بھی دخل تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1971 میں اندرا گاندھی نے کئی اہم ممالک کا دورہ کرکے اپنے لیے فضا سازگار بنا لی تھی۔ قوم کو لاپرواہی کے بجائے جاگنے کی ضرورت ہے اور قائد اعظم رح کے فرمودات پر غور کرنا چاہئیے۔ بنگلہ دیش میں اپنائیت کے احساسات کا ہمیں بھی محبت سے جواب دینا چاہئیے۔ تقریب کے مہمان اعزاز سابق سفیر اور این پی سی کی مجلس عاملہ کے سینئر رکن صلاح الدین چوہدری نے کہا کہ میں انسانیت پر یقین رکھتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ طرفین میں بدگمانیوں کے باوجود پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان مذہبی و انسانی سطح پر فطری بھائی چارہ موجود ہے۔ سالہا سال گزرنے کے بعد دوسری جانب بھی یہ احساس موجود ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہئیے تھا۔ اب ہمیں آگے بڑھنا چاہئیے دونوں برادر اسلامی ممالک کا اسی میں فائدہ ہے۔ تقریب سے سجاد افضل چیمہ، متین احمد فاروقی اور حمید قیصر نے بھی خطاب کیا۔ قبل ازیں سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم شہداء کیلئے حافظ اکرام محمود نے خصوصی دعا کی جبکہ عالی شعار بنگش اور نازیہ درانی نے اے پی ایس کے شہداء کو منظوم خراج پیش کیا۔ مقررین نے موضوع کی مناسبت سے شرکاء کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے سانحات کے اصل حقائق پر بھرپور روشنی ڈالی۔

اپنا تبصرہ لکھیں