پائیڈکا ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کے لئے نئی پالیسی سازی کا منصوبہ فیوچر آن وہیلز

اسلام آباد پاکستان کے ادارہ برائے معاشی ترقی پائیڈ نے اتوار کے روز ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے نئی پالیسی تجویز کی ہے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامک کی طرف سے اس مجوزہ پالیسی کا اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ مجوزہ پالیسی میں’ٹیکنالوجی کی منتقلی، گلوبل ویلیو چین انٹیگریشن، برآمد کی بنیاد پر پروڈکشن اور ریڈونگ اپ فرنٹ لاگت کے شعبوں کو ترجیح دینے کی سفارشات کی گئی ہیں۔

پائیڈ کا کہنا ہےکہ وزیر اعظم نے ستمبر 2024 میں حکومت کو ہدایت کی کہ وہ الکٹرک گاڑیوں کو بنانے کے عمل کو تیز کرنے اور ملک بھر میں صارفین کو اپنانے کے لیے ایک نئی پالیسی پیش کرے۔ادارے نے وزیر اعظم کی ہدایت پر الیکٹرک گاڑیوں کے لیے مظبوط پالیسی بنانے کی سفارش کی ہے۔اس موثر پالیسی فریم ورک کی ترقی میں معاونت کے لیے اپنی سفارشات کی دستاویز ‘فیوچر آن وہیلز’ کے نام سے پیش کی ہے۔پالیسی سازی کے لیے ماہرانہ تجاویز پر مشتمل ان دستاویزات کو پاکستان کی گاڑی سازی کی صنعت پر حال ہی میں شائع ہونے والی 2 کتابوں کی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔

ادراہ برائے معاشی ترقی ملک میں ایکٹرک گاڑی سازی کی صنعت کی ترقی کے لیے 2030 کے لیے قلیل مدتی اہداف کے ساتھ ایک طویل مدتی پالیسی وضع کرنے کی سفارش کرتا ہے، جس میں 2035 تک درمیانی مدت کے اہداف اور 2040 تک حاصل کیے جانے والے طویل مدتی اہداف شامل ہیں۔ان میں تمام نئے 4-وہیلرز کا 10% اور 25% شامل ہیں۔ پالیسی کے تحت 2030 تک تمام نئے فروخت ہونے والے موٹر سائیکل اور رکشا مکمل طور پر بجلی سے چلنے والے ہوں گے۔ جبکہ پاییڈ پہلے دورانیہ میں فروخت ہونے والی گاڑیوں میں الیکٹرک گاڑیوں کا حصہ 50 فیصد اضافہ کرنے اوردوسرے دورانیہ میں 2040 تک 75 کرنے کی سفارش کی ہے۔جبکہ پائیڈ نے پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار بڑھانے کی بھی سفارش کی ہے۔تاکہ 2035 تک پاکستان میں تیار ہونے والی 3,2اور 4 پہیوں کی گاڑیوں کا 50فیصد الیکٹرک گاڑیوں پر مشتمل ہو۔

پائیڈ کی پالیسی سفارشات میں ملک کی کار سازی کی صنعت اور خاص طور پر الیکٹرک گاڑیوں کو عالمی ویلیو چین میں ضم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب الیکٹرک گاڑیوں کے پرجہ جات کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کم کی جائے، جب کہ برآمدات کو بڑھانے کے لیے الیکٹرک گاڑیوں اور ان کے کے پرزہ جات اور اجزاء کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کیا جائے۔

پائیڈ نے تجویز کیا ہے کہ 2030 تک تمام الیکٹرک گاڑیوں کے کا 10فیصد اور 5فیصد پرزہ جات برآمد کیے جائیں۔جب کہ پاکستان میں تیار ہونے والی تمام الیکٹرک گاڑیوں اور پرزہ جات کا 50% 2040 تک برآمد کیا جانا چاہیے۔اس مقصد کے لیے، حکومت کو پاکستان میں موجودہ کار ساز فرموں اور غیر ملکی فرموں کے درمیان مشترکہ منصوبے شروع کرنے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔تاکہ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور بنیادی سرمایہ کے ذریعے الیکٹرک گاڑیوں، پرزہ جات اور اجزاء کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔

پاکستان میں سرمایہ کاری اور مینوفیکچرنگ کو راغب کرنے کے لیے G2G اور G2B کی بنیاد پر مشغولیت کی جانی چاہیے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ وہ کمرشل بینکوں کے ذریعے سرمایہ کی فراہمی کے لیے ایک ماحول دوست فنانسنگ منصوبہ وضع کرے تاکہ پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں اور ان کے پرزہ جات بنانے کی ترقی میں مدد مل سکے، جس میں موجودہ مینوفیکچرنگ سہولیات کے ازسرنو قیام یا توسیع پر گہری توجہ دی جائے۔

ملک میں گاڑیوں کی چارجنگ کی سہولیات کا قیام ممکن بنایا جاۓ۔الیکٹرک گاڑیوں اور اس سے متعلقہ شعبوں میں تحقیق اور ترقی کے مواقوع کے انعقاد کی ضرورت کی بھی ضرورت ہے۔ تاکہ پاکستان الیکٹرک گاڑیوں کی طرف منتقلی میں ایک عالمی کھلاڑی بن جائے۔پائیڈ نے ایک تحقیقی فنڈ قائم کرنے کی بھی سفارش کی تاکہ اہداف کو تحقیقی سرگرمیوں کی سہولت فراہم کی جائے۔جس پر خاص توجہ مرکوز کی جائے لیکن یہ صرف الیکٹرک گاڑیاں بنانے کی پیداوار کی لاگت کو کم کرنے، ابتدائی کے دور کی تکمیل کے بعد بیٹریوں کے دوبارہ استعمال اور ماحولیاتی طور پر محفوظ بیٹری کے فضلے کو ٹھکانے لگانے تک محدود نہیں۔

پائیڈ کا مزید کہنا ہے کہ اس کا فیوچر آن وہیلز منصوبہ پالیسی نقطہ نظر، اس بات پر زور دیتا ہے کہ الیکٹرک گاڑیوں کو اپنانا نہ صرف ماحولیات کے لے ضروری ہے بلکہ ایک اقتصادی موقع بھی ہے۔ پچھلی پالیسیوں سے سیکھے گئے سبق کی بنیاد پر ایک اچھی اور موثر پالیسی پاکستان کے لیے ایک پائیدار مستقبل کی طرف بڑھنے کا مرحلہ طے کرے گی۔

اپنا تبصرہ لکھیں