عوامی نیشنل پارٹی نے کہا ہے کہ 24 سے 27 نومبر کے دوران گنڈا پور کی اسلام آباد پر چڑھائی کے ردعمل میں پولیس نے پختونوں کو ہدف بنا لیا ہے۔اسلام آباد پولیس پختوں کے خلاف کریک ڈاون میں ان کو گرفتار کر ک پیسے بنا رہی ہے۔
اے این پی کے مرکزی ترجمان احسان اللہ خان نے ثمر ہارون بلور اور سینیٹر ہدایت اللہ خان کے ہمراہ جمعرات کے روز اسلام آباد پریس کانفرنس منعقد کی۔ترجمان اے این پی احسان اللہ خان ے کہا پولیس نے پختونوں کا وفاقی دارالحکومت میں رہنا جرم بنا دیا ہے۔ہم پختونوں کے خلاف اس کریک ڈاون کی مذمت کرتے ہیں اور اس کے خلاف مزاحمت کریں گے۔اور احتجاج کریں گے۔انہوں نے کہا ہم رنگ نسل اور تعصب کے قائل نہیں ہیں۔اے این پی وفاقیت کی حمائتی ہے۔
سیاسی جماعتوں کو راستہ نکالنا ہو گا۔گزشتہ 2 برس میں خیبر پختون خواہ میں جاری بدامنی کو وفاقی حکومت نظر انداز کر رہی ہے۔ماضی میں بھی ملک توڑنے کی مہم کسی اور نے نہیں ریاست نے شروع کی۔
ثمر ہارون بلور نے کہا سید پور ویلج میں ایک ریسٹورنٹ کے تمام عملہ کو پولیس اٹھا کر لے گئی۔گرفتار پختونوں کو رسیوں سے باندھ کر چہروں پر کپڑے باندھ کر عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔گرفتار بختون سے ملنے کے لیے آنے والے لواحقین کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔ پولیس اور وفاقی حکومت غریب پختون کی بجاۓ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو گرفتار کرے۔انہوں نے کہا اعلی بیورو کریسی کی طرف سے پختون کو اٹک پل پار نہ کرنے دینے کی بات کی جا رہی ہے۔کیا پختونوں کوپنجاب اور وفاق میں داخلے کے لیے ویزہ لینا ہو گا؟ غریب پختون کی گرفتاری پر حکومتی حمایت میں مصروف صحافی ان کو افغان قرار دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا اسلام آباد پر دھاوا بولنے والوں کو دوسری مرتبہ بھاگنے کا راستہ فراہم کیا گیا۔پختون کے دل میں نفرت نہ پیدا کی جائے۔ہم وکیل فراہم کریں گے۔پولیس کو وفاقی حکومت کی طرف سے 16 سے 18 ہزار پختون گرفتار کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔
سینیٹر ہدایت اللہ خان نے کہا کرم میں عرصہ سے جنگ بندی چل رہی تھی۔جہاں صوبائی حکومت مکمل ناکام ہے۔یہاں وفاقی دارالحکومت میں لاکھوں پختون لوگ رہائش پذیر ہیں۔جن میں کاروباری برادری اور مزدوروں کی بڑی تعداد شامل ہے۔سارے دشت گرد پختون ہیں کا نعرہ غلط ہے۔بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا نہ کیۓ جائیں۔ایسا نہ کریک ڈاوں کے بعد پختون کوئی نعرہ لگانے پر مجبور ہو جائیں۔کیا ایک سیاسی جماعت کے مخصوص صوبے سے تعلق رکھنے والے ہی گرفتار ہوں گے؟۔پی ٹی آئی پر پابندی اور گورنر راج مسلے کا حل نہیں ہے۔سیاسی مسائل کا سیاسی راستہ نکالنا ہو گا۔
ڈی آئی جی آپریشنز علی رضا نے اے این پی راہنماوں کی پریس کانفرنس کو جھوٹ قرار دیا ہے۔جبکہ ترجمان پولیس کا پریس کانفرنس پر درعمل دیتے ہوئے کہنا ہے کہ مذموم مقاصد کےلئے منفی پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے جو کہ قومی سالمیت کے خلاف سازش ہے۔حالیہ امن عامہ کی صورتحال کے دوران کسی بھی پر امن پشتون کو ہرگز حراست میں نہیں لیا گیا۔
قانونی کارروائی شر پسند عناصر کے خلاف عمل میں لائی گئی ہے نہ کہ کسی قومیت اور علاقہ کی بنیاد پر ۔