ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر فائرنگ سے ہلاکتوں کی تعداد 44 ہو گیی

خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں نامعلوم مسلح افراد کی مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 44 ہو گئی ہے.جبکہ 11 زخمیوں کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب پاراچنار سے پشاور جانے والے قافلے کو ضلع کے ایک اونچے مقام پر نشانہ بنایا گیا۔

خیبر پختونخوا کے وزیر قانون آفتاب عالم نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات جاری ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ فائرنگ راستے میں پہاڑوں سے ہوئی اور دو گروپوں کے درمیان مقامی تنازعہ ہوا۔ تاہم دونوں گروپ ایک دوسرے پر حملے کا الزام لگا رہے ہیں۔ وزیر عالم نے اس بات پر زور دیا کہ فائرنگ کسی مقامی گروپ نے نہیں بلکہ ایک دہشت گرد تنظیم نے کی۔

صدر کی کرم میں شہریوں پر حملے کی مذمت

صدر آصف زرداری نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بزدلانہ اور غیر انسانی فعل قرار دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ غیر مسلح مسافروں کو نشانہ بنانے کے ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے۔

حملے کے بعد وزیر داخلہ محسن نقوی نے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے خطے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کو اجاگر کیا۔ دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر اتفاق کیا اور سیکیورٹی مسائل سے نمٹنے کے لیے مضبوط تال میل پر زور دیا۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے صوبائی وزیر قانون اور متعلقہ ایم این اے اور ایم پی اے سمیت مقامی حکام کو کرم کا دورہ کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے وفد پر زور دیا کہ وہ زمینی صورتحال کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کریں۔ مزید برآں، وزیر اعلیٰ نے کرم میں کشیدگی کو دور کرنے اور سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد کے لیے مقامی جرگے کو دوبارہ فعال کرنے پر زور دیا۔

متاثرین کے لواحقین کی مدد کے لیے علی امین گنڈا پور نے المناک حملے میں جاں بحق ہونے والوں کے لیے مالی امداد کا اعلان بھی کیا۔

*واقعہ پر مجلس وحدت مسلمین کا تین روزہ سوگ اور احتجاج کا اعلان*

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری سید ناصر عباس شیرازی نے بگن کے مقام پر پارہ چنار سے پشاور جانے والی مسافر گاڑیوں پر بزدلانہ کارروائی کی شدید مذمت اور تین روزہ سوگ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسافروں پر حملہ بدترین دہشتگردی ہے، امن و امان کی مسلسل بدترین صورتحال علی امین گنڈہ پور، وفاقی وزیر داخلہ اور سیکورٹی اداروں کی کارگردگی پر سوالیہ نشان ہے، سانحہ کی تمام تر ذمہ داری کے پی کے حکومت پر عائد ہوتی ہے اور وفاقی حکومت بھی سانحہ بگن کی ذمہ دار ہے، افسوسناک واقعہ میںپچاس سے زائد بے گناہ افراد شہید ہو گئے ہیں، وزیر داخلہ کی مجرمانہ خاموشی کی مذمت کرتے ہیں، نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں جمعرات کے روز ایم ڈبلیو ایم کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ کئی ماہ سے ضلع کرم میں امن کی مخدوش صورتحال اور صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی نااہلی کے خلافہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئےمجلس وحدت مسلمین کے مرکزی جنرل سیکرٹری سید ناصر عباس شیرازی کا مزید کہنا تھا کہ ایم ڈبلیو ایم سانحہ بگن پر تین روزہ سوگ کا اعلان کرتی ہے، ہمارے ایم این اے کو آئینی ترمیم پر ساتھ دینے کی قیمت پر کرم میں امن قائم کرنے کا عندیہ دیا گیا، کل بروز جمعہ اس دہشگردی اور بربریت کے خلاف ملک گیر احتجاجات کئے جائیں گے، پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں اس بربریت خلاف احتجاجات کئے جائیں گے، حکمران اس ملک کو ہمارے خون کی قیمت پر چلانا چاہتے ہیں، یہ کوئی شیعہ سنی مسئلہ نہیں خوارج کا مسافروں پر حملہ ہے، زخمیوں کو فوری طور پر اس علاقے سے نکالا جائے، شہیدوں کو ان کے گھروں تک پہنچانے کے لئے اقدامات کئے جائیں، مطالبہ کرتے ہیں کہ متاثرہ علاقے میں ریسکو آپریش کیا جائے، دہشتگردوں کی سرکوبی کے لئے فوری آپریشن شروع کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ معصوم شہریوں کے خون کی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد ہوتی ہے، حکومتی ذمہ داران کو اس بات کا علم تھا کہ صورتحال انتہائی حساس اور خطرناک ہے لیکن پھر بھی حالات کی بہتری کیلئے کوئی خاطر خواہ اور موثر اقدامات نہیں اٹھائے گئے، صوبائی حکومت کی پارہ چنار بارے غیر سنجیدگی شرمناک ہے، ریاستی اداروں کی نگرانی میں جانے والے نہتے مسافروں پر حملے نے کئی سوالات اٹھا دیئے ہیں، قومی شاہراہ کا گزشتہ پانچ ہفتوں سے بند ہونا تمام ذمہ دار ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں