وزیر دفاع خواجہ آصف نے معروف صحافتی پلیٹ فارم انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ پاکستان کی بقا کا معاملہ ہے، ہم 18 ارب ڈالر کہاں سے دیں گے۔پاکستان کو ایران گیس پائپ لائن معاہدہ سے متعلق کسی اور ملک کو شامل کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ ڈپلومیسی کرنی چاہیے تاکہ وہ ’ہمیں یہ معاہدہ مکمل‘ کرنے دے۔
وزیردفاع سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان، ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر عمل درآمد میں رکاوٹ کیا ہے؟ تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’قطعی طور پر عالمی دباؤ ہمیں مجبور کر رہا ہے کہ ہم ایران سے اپنا معاہدہ پورا نہیں کر پا رہے۔‘اگر پاکستان اس پائپ لائن کے معاہدے کو مکمل نہیں کرتا تو امکان ہے کہ ایران اس کے خلاف 18 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔
اس حوالے سے وفاقی وزیر دفاع نے کہا کہ ’ہم 18 ارب چھوڑ کر 18 ملین نہیں دے سکتے۔ اس وقت جو ہمارے مالی حالات ہیں اس میں اتنی بڑی رقم ادا کرنا وہ بھی صرف اس لیے کہ امریکہ یا کسی اور کو ناراض نہیں کرنا چاہتے کہ پابندیاں نہ لگ جائیں۔‘
خواجہ آصف نے کہا کہ ’ہمیں اس میں راستہ نکالنا چاہیے، دوسرے ممالک سے کہنا چاہیے کہ وہ امریکہ کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ ہمیں ایران سے گیس پائپ لائن معاہدہ مکمل کرنے دے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہندوستان ایران کے ساتھ کاروبار کر رہا ہے، اور بہت سے ملک ایران کے ساتھ کاروبار کر رہے ہیں ان پر کوئی پابندیاں نہیں لگیں لیکن ہمیں بلیک میل کیا جا رہا ہے جو بہت بڑی زیادتی ہے۔‘
’ہمیں اس میں راستہ نکالنا چاہیے دوسروں ممالک سے کہنا چاہیے کہ وہ امریکہ کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ ہمیں ایران سے گیس پائپ لائن معاہدہ مکمل کرنے دے۔‘
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ ’رواں ماہ وزیراعظم شہباز شریف امریکہ جائیں گے تو انہیں وہاں یہ ضرور بات کرنی چاہیے کہ ہمیں وہ (ایران) عدالت میں لے کر جا رہے ہیں، نقصان کا اندیشہ ہے لہذا ہمیں اجازت دیں تاکہ ہم معاہدہ پورا کریں۔‘
کیا ایران نے پاکستان کو معاہدے پر عمل نہ کرنے کے سے متعلق آخری نوٹس بھی بھیج دیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ’ایران نے برادر اسلامی ملک ہونے کی حیثیت سے بہت صبر کیا ہے یہ معاہدہ 2008/9 میں مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔
’اس گیس پائپ لائن راہداری نے انڈیا بھی جانا تھا اور ہم نے راہداری سے ٹیکس بھی لینا تھا۔ اب اگر ایران عالمی عدالت جارہا ہے تو اسے اپنے حقوق کا تحفظ کرنا پڑ رہا ہے اگر وہ نہیں جائیں گے تو ان کے قانونی حقوق کمپرومائز ہو جائیں گے۔‘