پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ (پی سی آئی) کے زیر اہتمام سینیٹر مشاہد حسین سید کی سربراہی میں ’فرینڈز آف سلک روڈ‘ سیریز کے تحت ایک اہم آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں ملک کی 8 سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداری) کے لیے غیر متزلزل حمایت کا عزم دوبارہ دہرایا گیا۔ اس تقریب میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم، بی اے پی، نیشنل پارٹی، این ڈی ایم اور جے یو آئی (ف) کے نمایاں رہنماؤں نے شرکت کی۔
کانفرنس کے دوران کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کے تیسرے پلینم کے نتائج اور چین کے خارجہ تعلقات پر اس کے اثرات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے چین کی ترقی اور کامیابی کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ چین کی کامیابی کی پانچ اہم وجوہات ہیں: قیادت کا معیار، پالیسیوں کا تسلسل، دوسروں سے سیکھنا، کورس کی درستگی، اور پرامن خارجہ پالیسی۔ انہوں نے کہا کہ سی پی سی دنیا کی سب سے بڑی اور کامیاب ترین سیاسی جماعت ہے جس نے چین کو عالمی طاقت بنا دیا ہے۔
سینیٹر شیری رحمان نے اس موقع پر کہا کہ چین نے گلوبل سائوتھ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور سی پیک نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع پیدا کیے ہیں۔ انہوں نے سی پیک کے تحت صاف توانائی کی ترقی میں چین کے کردار کو پاکستان اور خطے میں پائیدار ترقی میں اہم قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 20ویں مرکزی کمیٹی کے تیسرے مکمل اجلاس کے نہ صرف چین بلکہ دنیا پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ چین کی ترقی دنیا کے لیے ایک رول ماڈل ہے اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) دنیا بھر میں مشترکہ ترقی اور خوشحالی کے لیے نیک شگون ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک پاکستانیوں کے لیے امید کی کرن ہے اور ہمارے مضبوط دوطرفہ تعلقات کی علامت ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے ایم این اے مولانا عبدالغفور حیدری نے پاک چین تعلقات کی پائیداری پر روشنی ڈالتے ہوئے چین کی ترقی میں صدر شی جن پنگ کے کردار کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ صدر شی کی قیادت نے عالمی سطح پر چین کی شاندار ترقی کو آگے بڑھایا ہے۔
نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کے سینئر رہنما سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی صرف ایک سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک مضبوط حکمران قوت ہے جس نے چین کو بے مثال ترقی کی طرف گامزن کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو چین سے سبق سیکھنا چاہیے اور اقتصادی ترقی میں فرنٹ لائن ریاست بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سینیٹر جان محمد جمالی نے کہا کہ بلوچستان کا مستقبل پاکستان کے وسیع تر ترقیاتی اہداف سے جڑا ہوا ہے۔ رکن قومی اسمبلی و پارلیمانی سیکرٹری وزارت خارجہ شزرا منصب علی نے ون چائنا پالیسی کے لیے پاکستان کی غیر متزلزل حمایت اور چین کے اتحاد، علاقائی سالمیت اور خودمختاری کے احترام کا اعادہ کیا۔
نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر جان محمد بلیدی نے بلوچستان کی یونیورسٹیوں اور چینی یونیورسٹیوں کے درمیان تعاون کو بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر عبدالقادر نے کہا کہ پاکستان چین کے تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے، خاص طور پر اقتصادی ترقی، انفراسٹرکچر، اور گورننس کے شعبوں میں۔
ایم کیو ایم کے طحہٰ احمد خان نے پاکستان کے تجارتی مرکز کے طور پر کراچی کی تزویراتی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سی پیک کے روٹ کے ساتھ کراچی کی قربت اسے انتہائی اہمیت بخشتی ہے۔ انہوں نے سی پیک کے تحت مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے شعبوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
سینیٹر علی ظفر نے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی پالیسی کے تسلسل اور بدعنوانی کے خاتمے کی اہمیت پر زور دیا، اور کہا کہ یہ چین کی پائیدار ترقی کے کلیدی عوامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھی اسی طرح کا طریقہ کار اپنا کر فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
پاکستان میں چینی سفارت خانے کے منسٹر کونسلر یانگ نو نے 20ویں مرکزی کمیٹی کے تیسرے مکمل اجلاس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ سیشن چین میں مزید اصلاحات کے بلیو پرنٹ کے طور پر کام کرے گا اور مسلسل تعمیر و ترقی کی راہ ہموار کرے گا۔
وفاقی وزیر برائے بحری امور قیصر احمد شیخ نے بطور مہمان خصوصی کہا کہ چین میں فیصلے اتفاق رائے پر مبنی نقطہ نظر کے ذریعے کیے جاتے ہیں، جو موثر حکمرانی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک نے خطے میں مثبت تبدیلی لائی ہے اور گوادر ہوائی اڈے کی ترقی اقتصادی ترقی اور رابطے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
تقریب کے اختتام پر سینیٹر مشاہد حسین سید نے تمام شریک سیاسی جماعتوں کی جانب سے مشترکہ بیان پڑھ کر سنایا جس میں چین کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے اور سی پیک کے حوالے سے قومی سطح پر اتحاد اور ہم آہنگی کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
تقریب میں مختلف شعبوں، اکیڈمیا، میڈیا، صنعت، سول سوسائٹی، طلباء، سکالرز اور تھنک ٹینکس سے تعلق رکھنے والے 200 سے زائد افراد نے شرکت کی۔