ضلع شیخوپورہ کی تحصیل فیروز والا میں گھر کا دروازہ توڑ کر گھر میں داخل ہونے اور حاملہ خاتون پر تشدد کر کے پیدائش سے قبل بچی کو قتل کرنے والے پولیس اہلکاروں اور متاثرہ شہری کے مابین صلح نامہ تحریر کر دیا گیا ہے۔
ڈی پی او شیخپورہ کے دفتر نے سی این این سے گفتگو کرتے ہوۓ بتایا کہ واقعہ کا مقدمہ درج کروانے کے لیے کوشاں متاثرہ شخص علی رضا اور پولیس کے مابین صلح ہو گئی ہے۔اس لیے پولیس اب اپنے افسران کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گی۔
اس سے قبل ڈی پی او شیخوپورہ بلال ظفر علی الصبح سے واقعہ کے سلسلے میں سرگرم رہے۔ بار بار رابطہ کرنے پر بلال ظفر کے عملہ نے نے بتایا کہ ڈی پی او پولیس کے حملے اور تشدد کے نتیجے میں ماں کے پیٹ میں بچی ہلاکت کے معاملات میں مصروف ہیں۔
شیخوپورہ پولیس نے شہری کے گھر پر پولیس کے غیر قانونی حملے اور حاملہ خاتون پر تشدد اور بچی کو پیدائش سے قبل ہلاک کرنے پر مقدمہ دائر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جبکہ بعد ازاں ڈی پی او بلال ظفر نے بھی واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ڈی پی او شیخوپورہ نے واقعہ کی انکوائری کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پولیس کے خلاف مقدمہ کا اندراج ناممکن قرار دیا تھا۔
تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ ڈی پی او سارا دن پولیس کی دہشت گردی کے اس واقع کے سلسلے میں مصروف رہے۔جس کے نتیجے میں پولیس کی دہشٹ گردی، بغیر وارنٹ گھر پر حملہ کرنے دروازہ توڑ کر گھر میں داخل ہونے، حاملہ خاتون پر تشدد کر کے بچی کو ہلاک اور خاتون کو زخمی کرنے کا مقدمہ اندارج کرنے کے لیے پولیس سے رابطہ کرنے والے مٹاثرہ شہری علی رضا کی طرف سے اسٹامپ پیپر پر پولیس کے ساتھ صلح کا معائدہ منظر عام پر لے آئے ہیں۔جبکہ متاثرہ شہری علی رضا غائب ہیں۔
فیروز والا کے شہریوں علی دستگیر اور محمد نواز نے سی این این اردو سے گفتکو کرتے ہوئے بتایا کہ اہل علاقہ کی طرف سے احتجاج کے فوری بعد ڈی پی او نے علی رضا کو اپنا مہمان بنا لیا تھا۔اور ڈی ذی او کا مہمان بننے کے بعد علی رضا کے کسی سے بھی رابطہ نہیں ہے۔ممکن ہے کہ پولیس اپنی تحویل میں علی رضا کو زرائع ابلاغ کے سامنے لے آئیں مگر یقینی نہیں ہے کہ علی رضا علیحدگی میں کسی سے بات کرنے کے لیے دستیاب ہو سکیں۔
فیروز والا کے تھانہ انڈسٹریل ایریا کے ایس ایچ او واقعہ کے بعد سے شہر میں دستیاب نہیں ہیں جپکہ ان سے فون پر رابطہ بھی ممکن نہیں ہے۔ جبکہ متعلقہ ڈی ایس پی نواز سیال چھٹی لے کر گھر روانہ ہو گئے تھے۔انہوں نے بتایا تھا کہ تا حال ان کو واقعہ کا علم ہی نہیں ہے۔
ڈی پی او دفتر کی طرف سے سرکل کا چارج ڈی ایس پی افتخار کو دینے کا بتایا گیا مگر ڈی ایس پی افتخار نے سی این این اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی پی او دفتر کی اس اطلاع کو دروغ گوئی قرار دے دیا۔انہوں نے کہا میں ڈی ایس پی سٹی کے فرائض انجام دے رہا ہوں۔جبکہ اس واقعہ کے بعد عوامی ردعمل کے پیش نظر لا اینڈ آرڈر کی بحالی کے لیے اس سرکل میں نفری کے ہمراہ موجود ہوں۔
مقامی صحافی متین الحسن نے سی این این اردو سے گفتکو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ پولیس کی ظلم اور بربریت کا واقعہ ہے۔جس میں پولیس رات کے تین بجے بغیر وارنٹ کے دروازہ توڑ کر شہری کے گھر میں داخل ہوئی۔ پولیس کے اس حملے میں ان کے ہمراہ خواتین پولیس اہلکار بھی موجود نہیں تھیں۔ جبکہ 15 سے زائد مرد اہلکار 8 ماہ کی حاملہ خاتون پر تشدد کرتے رہے۔جس کے نتیجے میں پیٹ کے اندر بچی ہلاک جبکہ خاتون زندگی اور موت کے بیچ ہے۔
متین الحسن نے کہا ڈی پی او بلال ظفر کی کاوشوں سے متاثرہ شہری پر اتنا دباو تھا کہ اس نے صلح نامہ لکھ کر پولیس کے خلاف انصاف کے حصول سے توبہ کر لی۔ انہوں نے کہا مجھے کچھ زرائع سے معلوم ہو ہے کہ ڈی پی او بلال ظفر اہل علاقہ کی طرف سے احتجاج اور زرایع ابلاغ میں واقعہ کی رپورٹنگ کے بعد پولیس کے خلاف کسی بھی کاروائی کو ناممکن بنانے کے لیے متحرک رہے ہیں۔بلال ظفر پہلے نے پہلے تو انکوائری مقرر کرنے کا اعلان کر کے پولیس کے خلاف کاروائی کو خارج از امکان قرار دیا۔بعد ازاں صلح نامہ دکھا کر قانونی کاروائی کو ناممکن بنا دیا۔