صدر آصف علی زرداری کی زیرِ صدارت کراچی کو شہری سیلاب سے بچانے سے متعلق اجلاس

صدر مملکت نے کہا کہ کراچی میں شہری سیلاب روکنے کیلئے جامع منصوبہ ترجیحی بنیادوں پر تیار کرنا ہوگاکراچی کو شہری سیلاب سے بچانے کیلئے حکومت ِسندھ پائیدار اور طویل مدتی حکمت عملی اپنائے ،عالمی معیار کے مطابق سیوریج اور سیلابی پانی کے مؤثر انتظام کا نظام اپنانا ہوگا،کراچی میں زیرِ زمین سرنگوں کے ذریعے سیلاب پر قابو پانے کی فزیبلٹی اسٹڈی تین ماہ میں مکمل کی جائے
کراچی اور اس کے ساحلی علاقوں کو صاف ستھرا بنانے ، دنیا کے دیگر میٹروپولیٹن شہروں کے برابر لانے کی ضرورت ہے،سرنگوں کے مجوزہ منصوبے کے نمایاں ماحولیاتی اثرات ہوں گے، حکومت سندھ بین الاقوامی ڈونرز سے سرنگوں کے مجوزہ منصوبے کےلئے ماحولیاتی فنانسنگ حاصل کرنے پر غور کرے ،
آلودہ پانی صاف کرنے کے نظام کی تعمیر سے بلوچستان کو بھی زراعت کیلئے پانی میسر ہوگا، صاف پانی کے نظام کی تعمیر سے ماہی گیری کے شعبے کو بھی فروغ حاصل ہوگا،
حیدرآباد شہر کو بھی شہری سیلاب اور سیوریج کے مسائل کا سامنا ہے ، ترجیحاً حل کرنے کی ضرورت ہے،اجلاس میں وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی شرکت کی صدر مملکت کو عالمی آبی اور سیوریج مینجمنٹ ماہرین کی طرف سے جامع بریفنگ دی گئی

ماہرین نے کراچی میں شہری سیلاب اور سیوریج کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مختلف تجاویز دیں ماہرین نے واشنگٹن ، لندن اور سنگاپور کے زیرِ زمین سرنگوں کے سیوریج نظام پر بھی روشنی ڈالی بریفنگ کے مطابق کراچی کے ہائی فلڈ زونز میں موجودہ سڑکوں کے نیچے چھوٹی اور بڑی سیوریج سرنگوں کا جال بچھایا جا سکتا ہے،
جدید ٹیکنالوجی پر مبنی زیر ِزمین سرنگوں سے عوام، ٹریفک اور زمین کی ملکیت کے حوالے سے پریشانی نہیں ہوگی کراچی میں تقریباً 450 ملین گیلن یومیہ سیوریج پیدا ہوتا ہے،سیوریج اور بارش کا پانی چھوٹے اور بڑے کھلے نالوں میں جمع ہوتا ہے سیوریج اور سیلابی پانی بغیر ٹریٹمنٹ سمندر میں چھوڑنے سے سمندری ماحولیاتی نظام آلودہ ہوتا ہے،کراچی کے نالوں کے موجودہ نیٹ ورک کی صلاحیت محدود ہے نالوں کا موجودہ جال عام حالات میں تقریباً 50 فیصد بارش کے پانی کو جذب کرتا ہے ،
کراچی کے سسٹم کی جانب سے اضافی پانی جذب نہ ہونے سے شہری سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے،
اجلاس میں ایڈجوٹنٹ جنرل لیفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک ، وزیر بلدیات سندھ سعید غنی ، میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے بھی شرکت کی اجلاس میں سینئر سرکاری افسران ، مقامی اور بین الاقوامی پانی کے انتظام کے ماہرین بھی شریک ہوئے

اپنا تبصرہ لکھیں